زَر یا ضَمیر

تحریر: سیدکمال


ڈاکٹرعامرلیاقت حسین پاکستان میڈیا انڈسٹری کا ایک بہت بڑا نام جو کسی بھی چینل کی کامیابی کی ضمانت سمجھاجاتاہے۔  ڈاکٹرعامرلیاقت کا بول ٹی وی چھوڑنے کا واقعہ کسی حد تک غیر معمولی اور اگر یہ کہا جائے کے اَن پروفیشنل  بھی ہے تو بیجا نہ ہوگا۔

تھوڑی دیر کے لیے ہم غیرجانب دار ہوکر تمام حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات بلکل عیاں ہے کہ بول ٹی وی اپنی آمد سے پہلے ہی تنازعات کا شکاررہا اورمیڈیا انڈسٹری میں ایک متنازعہ ادارے کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا۔ مگر اس کے باوجود عامرلیاقت حسین صاحب آپ نے شعیب شیخ صاحب کے دامن پر لگے تمام داغوں کو نہ صرف دھونے میں بھر پور کردار ادا کیا بلکہ پورے پاکستان کے  چِیدہ  چِیدہ  اداروں اور شخصیات پرکالک ملنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ وہاں کیا اُس پر ندامت اور معافیاں کیوں۔ آپ کے حالیہ بیانات سے کئی سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ کیا ہی یہ اچھا ہوتا کہ آپ اور ادارہ باہمی رضامندی سے الگ ہو جاتے۔ جس کی مثال عمران خان اور جمائمہ ہیں جنھوں نے اپنے راستوں اور مفادات کو علحیدہ کرنے کے باوجود  کبھی ایک دوسرے کی کردارکشی نہیں کی بلکہ ہمیشہ مشکل وقت میں ایک دوسرےکی مدد کی۔

عامر لیاقت حسین صاحب اگر آپ کی پروفائل پر ایک نظر ڈالی جائے تو آپ کا یہ جوازکسی طور قابلِ قبول نہیں کہ آپ نے بول ٹی وی پر جو کچھ کہا اور کیا وہ چینل انتظامیہ کے کہنے پر کیا۔ مگر آپ اتنے معصوم اور کمزور نہیں کے اصول اور سچائی کے آگے جھک سکیں۔ آپ کی قابلیت، اہلیت اور میڈیا انڈسٹری میں بلندوبالا قد پر کسی کو کوئی شک نہیں۔ آپ کےنام کے ساتھ آج بھی مذہبی معاملات میں اسلامِک اِسکالرلکھا جاتا ہے جبکہ ماضی میں آپ مذہبی اُمور کے وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں، ایم کیو ایم جیسی ماضی کی طاقتور ترین سیاسی جماعت کے سرکردہ راہ نما کے طور پر مشکل حالات میں خوبصورت دِفاع کرتے بھی دکھائی دیے۔ اور سب سےبڑی بات 2013-14  سے 2015-16 تک مسلسل تین سال دنیا کی سب سے زیادہ اثرورُسوخ رکھنے والی 500 مسلم شخصیات کی فہرست میں آپ کا نام رہا ہے۔ تواتنے معصومانہ انداز میں یہ کہنا کہ آپ سب کچھ چینل انتظامیہ کے کہنے پر کرتے رہے۔ آپ جیسی طاقتور ترین شخصیت پر زِیب نہیں دیتا۔   آپ کے بیان کو اگر دوسرے پہلو سےدیکھا جائےتو لگتا ہے کہ آپ ملازمت اور پیسوں کے لیےاتنےمجبور تھے کہ یہ سب کچھ کرنا پڑا۔




قطعِ نظر تمام باتوں کےآپ کے تمام بیانات میں بار بار مذہب کا سہارا لینا بھی کچھ اچھا تاثُر نہیں چھوڑتا کیونکہ ہمیشہ آپ کےاقوال اور افعال میں بہت تضاد نظر آتا ہے۔
مزید یہ کے آپ جیسی قدآور اور قابل شخصیت کو صحافت کی دنیا میں  نوجوانوں کے لیےرول ماڈل کا کردار ادا کرنا چاہیے ناکہ زَر کے خاطر ضمیر کا سودا کرکےاپنے باطن کی تسکین حاصل کریں۔



Comments

Popular posts from this blog

میں کو ن ہو ں؟

ٹی بی ۔۔۔ علاج ممکن ہے