حُقوقِ نسواں

 تحریر: نادیہ حسین


دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے تقریبات کا سلسلہ جاری ہے۔  8مارچ اقوام متحدہ کی طرف سے  خواتین کا عالمی دن منانے کی  تسلیم شدہ تاریخ ہےچنانچہ رکن ملک کی حیثیت سے پاکستان میں بھی یہ دن بھرپور انداز میں منایا جاتا ہے۔جگہ جگہ جلسے جلوس سمینار کانفرنسس منعقد کی جاتی ہیں۔ معاشرے کی ترقی میں عورتوں کے کردار اور حیثیت پر بحث کی جاتی ہے۔ان کے حقوق کے حصول کے لیے قرار دادیں منظور کی جاتی ہیں۔

مختلف حوالوں سے دن منانے اور حقوق مانگنے  کا تصور ہمارے یہاں مغرب سے آیا ہے۔ ظاہر ہے جس کے پاس جو کچھ نہیں ہو گا وہ مانگے گا۔کیونکہ مغرب کی اندھی تقلید ہم پر فرض ہے اس لیے ہم بھی بلا سوچے سمجھے اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔یہ نہیں سوچتے کہ مغربی معاشرے تو انسان کے بنائے ہوئے نظاموں کے زیر اثر چلتے ہیں۔یہ زندگی کے ہر پہلو اور گوشے کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔

خوش قسمتی سے ہم اس دین کے ماننے والے ہیں جو انسانی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔اسلامی ضابطہ حیات معاشرے کے ہر طبقے کے حقوق و فرائضکا تعین کرتا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے خواتین کے حقوق کا تو جتنے حقوق اسلامی شریعت میں خواتین کو عطا کیے گئے  ہیں ان کا عشر عشیر بھی ہمیں کسی دوسرے مذہب یا دنیاوی نظام میں نہیں ملتا۔

عورت کی حیثیت کی بات کی جائے تو اللہ نے بیٹی کو اپنی رحمت قرار دیا ۔جنت کا حصول ماں کی خدمت اور اطاعت سے مشروط کر دیا۔ اولاد پر باپ کے مقابلے میں ماں کا حق تین گنا زیادہ رکھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے خوشخبری دی کہ دو بیٹیوں کی اچھی پرورش اور تربیت کرنے والا باپ قیامت کے دن ان کے ساتھ دو انگلیوں کی ماند ہو گا۔ حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنے اور حسن سلوک کی تاکید فرمائی۔

معاشی معاملات پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ اللہ نے مرد کو عورت کا کفیل قرار دیا۔ اگر اسکا کوئی مرد کفیل موجود نہیں تو ریاست اس کی کفالت کی ذمہ دار ہے۔ اگر عورت کا کوئی ذریعہ آمدن ہے تو وہ اپنی آمدنی اپنی مرضی سے خرچ کرنے کی حقدار ہے۔ ماں 
بہن بیوی اور بیٹی کی حیثیت میں اسے جایئداد میں حصہ دار قرار دیا۔

عائلی حقوق کی بات کی جائے تو شادی کے لیے لڑکی کی رضامندی کو لازمی قرار دیا۔ حق مہر کو نکاح کی لازمی شرط قرار دے کر عورت کے معاشی حقوق کا بھرپور تحفظ کیا۔ نان نفقے کا حقدار قرار دیا۔ اگرعورت اپنی ازدواجی زندگی سے مطمین نا ہو تو اسے خلع کا حق دیا۔
علم کا حصول کسی بھی انسان کی دینوی اور دنیاوی زندگی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ نبی اکرمﷺ نے علم کا حصول مرد و عورت کے لیے لازمی قرار دیا۔

ان تمام حقوق پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا اللہ تعالی نے عورتوں کو مردوں سے زیادہ حقوق عطا کیے ہیں۔ عورت کا درجہ مرد سے زیادہ رکھا ہے۔ اور ہم ہیں کہ مغرب کی اندھی تقلید میں مرد کی برابری  مانگتے ہیں۔ یعنی اپنا  درجہ کم کروانا  چاہتے ہیں۔ یہ بیوقوفی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں جو اسلامی نظام زندگی کے نفاذ کے نام پر حاصل تو کیا گیا مگر  اب تک کسی حکمران نے ملک میں اسلامی نظام زندگی کے نفاذ کی کوشش نہیں کی۔

یہاں عورتیں تو دور کی بات مردوں کی اکثریت بھی اپنے حقوق سے محروم ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان کا حصول مرد عورت دونوں کے لیے ہی مشکل ترین بنا دیا گیا ہے۔ بات صرف عورتوں کے  حقوق کی کی جاتی ہے۔کوئی بھی دن منانے سے لوگوں کے حالات تو نہیں بدلتے غیر ملکی امداد پر پلنے والی  این جی اوز  کو اپنی دوکان چمکانے کا موقع مل جاتا ہے۔ اگر ملک میں اسلامی نظام زندگی نافذ ہو جائے تو سب کو ان کے حقوق مل جایں گے۔کوئی دن منانے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔



Comments

Popular posts from this blog

میں کو ن ہو ں؟

زَر یا ضَمیر

ٹی بی ۔۔۔ علاج ممکن ہے