دفاعی بجٹ کا دفاع
تحریر: سید کمال

ہم پاکستانی بہت جذباتی قوم ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں
تعلیم سے دور رکھا گیا۔ اور جہاں لوگوں نے تعلیم حاصل کی بھی وہاں وہ شعور کی منزل
سے بہت دور ہیں۔ اور جہاں شعور بھی ہے تو وہاں ذاتی مفادات آڑے آجاتے ہیں۔ اس ملک
کی 70 فیصد عوام آج بھی آنکھوں پر پٹی باندھے وڈیروں اور جاگیرداروں کے پیچھے چل رہی ہے۔
سال 2018 کے بجٹ میں بھی ایک بار پھر یہ شور اُٹھا کے حکومت
نے دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ کیوں کر دیا۔سال 2018 میں دفاع کے لیے 11سو ارب
روپے رکھے گئے۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے روپے کی قدر جس تیزی گر رہی ہے اورپوری
دنیا میں پرآئس اسکلیشن آرہا ہے ۔ اس حساب سے یہ اضافہ کچھ بھی نہیں۔ جبکہ ہمارا
پڑوسی ملک جس حساب سے اپنے دفاع اور عسکری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے رقم خرچ کر رہا
ہے تو اس کے مقابلے میں بھی یہ کچھ نہیں۔
موجودہ بجٹ میں
دفاع کے لیے 1100 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جبکہ قرضوں اور سود کے لیے جو رقم مختص کی گئی ہے وہ دفاعی بجٹ سے کہیں زیادہ ہے یعنی 16 سو 20 ارب
روپے ہم نے قرضے اور سود ادا کرنے کے لیے
رکھے ہیں۔ دفاعی بجٹ میں اضافے پر تو شور مچ جاتا ہے ۔ کیاقرضوں اور سود میں دی
جانے والی رقم کو بچا کر اچھی اور بہتر معاشی
پالیسی اور اصطلاحات نہیں کی جاسکتیں۔
پاکستانی فوج نے تو
ملکی ترقی اور سالمیت کے خاطر امریکہ اور کولیشن پارٹنرز کی بیرونی امداد تک
ٹھکرادی اور آج وہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے مختص کے گئے بجٹ میں رہتے ہوئے تمام
محاظوں پر نبرد آزما ہے ۔ جبکہ مگر ہمارے حکمراں آئی ایم ایف، ورلڈ
بینک یا امریکہ سے قرض لینے کے لیے ان کی
تمام شرائط بنا کسی عذر کے مان جاتے ہیں۔ اس ملک پر بوجھ فوج کے دفاعی بجٹ کا
نہیں بلکہ بیرونی قرضوں کا ہے۔ یہ مہنگائی فوج کو دیے گئے دفاعی بجٹ کی وجہ
سے نہیں بلکہ ملک میں غلط معاشی پالیسیوں اور اصطلاحات کی وجہ سے ہو رہی ہے ۔
اگر بات کی جا ئے ہمارے قومی اداروں کی تو کوئی ایک اداراہ
ایسا نہیں جو خسارے میں نہ ہو ۔ پی آئی
اے، اسٹیل مل، ریلوے تقریباً تمام ہی قومی
ادارے ملکی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے
ہیں۔ ہمارے بجٹ کا ایک بڑا حصہ تو ان
خساروں کو پور ا کرنے میں چلا جاتا ہے۔ یہ
کسی کو نظر نہیں آتا کے اگر ان قومی اداروں کو منافع بخش بنا دیا جائے
تو بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہم ملک کی ترقی میں
خرچ کر سکتے ہیں۔ اگر ان خساروں کو ختم کر دیا جائے تو ہم بیرونی
دنیا کے قرضوں سے بچ سکتے ہیں۔
قرضوں کی ادائیگی اور سود کی مد میں جو رقم ہم ضایع کر رہے ہیں وہ بھی بچ
سکتی ہے۔
فوج کے دفاعی بجٹ پر تو
فوراً بات کی جا رہی ہے کہ کیوں بڑھا دیا
جبکہ وہ ملک کی ضرورت ہے ۔ کیا کسی
کو یہ نظر نہیں آتا کے پاکستان قرضوں میں
ڈوباہوا ملک ہے ۔ کیا اس ملک کے حکمرانوں کا طرز حکومت کسی نے نہیں دیکھا ہے ۔ کیا ان کی شاہانہ زندگیاں نہیں دیکھی ہیں ۔سب کو اپنی فوج پر خرچ کیے جانے والی رقم پر تو فوراً اعتراض ہو جاتا ہے ۔کیا کسی نےاس ملک کے وزیروں کی فوج دیکھی جو اپنے عہدوں کی مد میں بنا کچھ کیے صرف اسمبلیوں میں تقاریر
کرنے کے لیےکیا کچھ مراعات لے رہے ہیں۔ کیا کسی نے اس ملک کے وزرأ
کے غیر ملکی دورے دیکھے ان دوروں پر خرچ کی جانے والی رقوم کا حساب لیا۔
فوج پر خرچ ہونےوالے بجٹ پر تو فوراً بحث
چھڑ جاتی ہے۔
ہمارے تمام حکمراں اپنے
اور اپنے اہل خانہ کے علاج کے لیے غیر ملکی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ کیا کسی نے پوچھا کے ان اسپتالوں کے اخراجات
کتنے ہیں اور کہاں سے اد ا کیے جاتے ہیں۔ کیا آپ
کے ملک میں اچھے ڈاکٹرز نہیں یا
اچھے اسپتالز نہیں۔ کسی بھی رینک کا کوئی فوجی تو اپنا علاج کروانےکبھی باہر نہیں گیا۔
پاکستان کی فوج نائن الیون کے بعد سے مستقل حالت جنگ میں ہے ۔ نا صرف سرحدوں بلکہ اندرونی محاذوں پر
بھی دہشت گردی سے نبرد ازما ہے۔ پھر یہ کےملک کسی بھی قسم کے مسائل چاہے وہ
قدرتی آفات ہوں یا لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ یہ فوج ہی ہے جو ان مسائل سے قوم کو
نکالتی ہے۔ انتظامیہ کے پاس تو وہ مشینری اور
وسائل بھی نہیں جس سے کسی بھی قدرتی آفات کا سامنا کیا جا سکے جبکہ ہر سال بجٹ کا ایک حصہ ان وسائل کو
بہتر بنانے کے لیے رکھا جاتا ہے ۔ وہ رقم کہا ں جاتی ہے کوئی نہیں پوچھتا۔
کسی بھی بجٹ میں آج تک جاگیرداروں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں پر
کوئی بوجھ نہیں ڈالا جاتا بلکہ بجٹ
کاپورا بوجھ غریب عوام پر ڈال کر یہ شوشا چھوڑ دیا جاتا ہے کہ کہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوج
لے کر چلی گئی ۔ اور ہماری غریب عوام ٹرک کی اس لال بتی کے پیچھے چل پڑتی ہے۔
اگر ہم کچھ چیدہ چیدہ چیزوں سے اپنے بجٹ کو ریشیڈول کریں مثلاً
قرضوں اور سود کی مد میں ادا کی جانے والی رقم، قومی اداروں کے
خسارے کو پورا کرنے کے لیے ادا کی جانے والی رقم،
ہمارے وزراء کی فوج کے لیے بے تحاشہ مراعات سے کچھ رقم بچا کر اور جاگیرداروں ، صنعت کاروں ، سرمایہ
داروں کو ٹیکس نیٹ میں لا کر اتنی رقم جمع
کر سکتے ہیں کہ ہم اپنی عوام کو ان کی بنیادی ضروریات بہت سستی قیمت پر دے سکتے
ہیں اور اس مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند
کر سکتے ہیں۔
Comments
Post a Comment